ایران میں صائب تبریزی کی دوبارہ مقبولیت کا ایک سبب شبلی نعمانی تھے
پوسٹ کردہ: مئی 13, 2017 Filed under: Uncategorized | Tags: فارسی ادب, ایران, بازگشتِ ادبی, تحریر, ترجمہ, شبلی نعمانی, شعرالعجم, صائب تبریزی تبصرہ چھوڑیںایران کے مجلُۂ وحید میں ۱۹۶۷-۸ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں تاجکستانی ادبیات شناس عبدالغنی میرزایف لکھتے ہیں:
"آثار شاعر بزرگ سدهٔ یازدهم ایران میرزا محمد علی بن میرزا عبدالرحیم متخلص به صائب، اگر خطا نکنم، از اوایل سدهٔ بیستم میلادی و اگر روشنتر به مسئله نزدیک شویم، از تاریخ نشر ‘شعرالعجم’ تألیف علامه شبلی نعمانی به این طرف اهمیت فوقالعاده تازهای پیدا کرد. دانشمند شهیر هند در این اثر خود، بر خلاف فکر غلط و بیاساس مؤلف تذکرهٔ ‘آتشکده’ میرزا محمد علی صائب را آخرین شاعر بزرگ ایران اعلام نمود. پس از این همان نوعی که معلوم است، دقت اصحاب تحقیق بیش از پیش به طرف آثار گرانبهای این شاعر نامی روانه گردید.”
"ایران کے گیارہویں صدی ہجری کے شاعرِ بزرگ میرزا محمد علی بن میرزا عبدالرحیم متخلص بہ صائب کی تألیفات نے، اگر خطا نہ کروں تو، بیسویں صدی عیسوی اور اگر واضح تر و درست تر کہا جائے تو علامہ شبلی نعمانی کی تألیف ‘شعرالعجم’ کی نشر کے بعد سے یہاں ایک تازہ و خارقِ عادت اہمیت پیدا کی تھی۔ ہند کے مشہور دانشمند نے اپنی اِس تصنیف میں، تذکرۂ ‘آتشکده’ کے مؤلف کی غلط و بے اساس رائے کے برخلاف میرزا محمد علی صائب کو ایران کا آخری بزرگ شاعر اعلان کیا تھا۔ بعد ازاں، جیسا کہ معلوم ہے، اصحابِ تحقیق کی نظر و توجہ قبل سے کہیں زیادہ اِن شاعرِ نامور کی گراں بہا تألیفات کی جانب مُنعَطِف ہو گئی تھی۔”
عبدالغنی میرزایف، یک مدرک تاریخی جدید راجع به صائب، مجلهٔ وحید، شمارهٔ اول – سال پنجم، ۱۹۶۷-۸ء
ویسے، صائب کی مقبولیت صرف ایران میں کم ہوئی تھی، اور وہ بھی صفوی دور کے بعد کی ‘بازگشتِ ادبی’ کی ادبی تحریک کے زمانے میں۔ ورنہ تُرکستان، دیارِ آلِ عثمان اور برِ صغیر میں صائب ہمیشہ ہی بے حد مقبول و معروف رہے تھے۔ اگرچہ، اِس زمانے میں صائب کی ایران میں جو مقبولیت ہے، اُسے دیکھتے ہوئے مشکل ہی سے یقین آتا ہے کہ ایک زمانے میں صائب تبریزی اور اُن کے سبکِ شعری کو یوں نظروں سے گرا دیا گیا تھا۔ صائب کے مقام میں اِس تنزّل کے لیے عموماً تذکرۂ ‘آتشکدہ’ کے مؤلف لطف علی بیگ آذر بیگدلی کو ذمّہ دار مانا جاتا ہے، جنہوں نے اپنی اِس پُرنفوذ تألیف میں صائب تبریزی کی شاعری پر نکتہ چینی کی تھی۔ تیجتاً، قاجاری دور میں صائب حاشیے پر چلے گئے تھے اور کسی قاجاری شاعر نے اُن کے اسلوب کی پیروی کرنا یا اُن کے دیوان پر زیادہ توجہ دینا پسند نہ کیا۔ حالانکہ یہی صائب تبریزی صفوی دربار کے ملک الشعراء تھے۔
اور اب حال یہ ہے کہ ایران و آذربائجان کے اکثر ادبیات دوست افراد صائب کو اپنا ایک بہترین شاعر مانتے ہیں۔
آذر بیگدلی ہی تحریکِ بازگشتِ ادبی کی بنیاد رکھنے والوں میں سے تھے۔
تاجکستانی نصابی کتاب میں شبلی نعمانی کا تذکرہ
پوسٹ کردہ: جولائی 9, 2015 Filed under: Uncategorized | Tags: فارسی ادب, فارسی زبان, تاجکستان, شبلی نعمانی, شعرالعجم, صائب تبریزی تبصرہ چھوڑیںتاجکستان کے مکاتب میں رائج کتاب ادبیاتِ تاجک: برائے صنفِ دہم میں صائب تبریزی پر مضمون میں یہ چیز پڑھنے کو ملی:
دانشمندِ هند شبلیِ نعمانی در ‘شعرالجم’ قضاوت میکند، که: "صائب، اگرچه تمامِ استادان و همعصرانش را به ادب یاد میکرده، لیکن به بعضی اساتیدِ (استادهای) سخن نهایت عقیدهمند بودهاست. زیاده از همه، به خواجه حافظ ارادت میورزد و این دلیلِ عمدهایست بر ذوقِ سلیمِ او…”
ترجمہ اور اصل اردو متن: ہند کے دانشمند شبلی نعمانی نے ‘شعرالعجم’ میں داوری کی ہے کہ: "صائب اگرچہ تمام اساتذہ بلکہ ہم عصروں کو ادب سے یاد کرتا تھا، لیکن خاص خاص اساتذہ کا نہایت معتقد تھا، سب سے زیادہ خواجہ حافظ کا معترف تھا اور یہ اس کی صحیح المذاقی کی بہت بڑی دلیل ہے۔”
مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ تاجکستانی طلبہ ہمارے عالمِ شہیر شبلی نعمانی اور اُن کی ممتاز تصنیف ‘شعرالعجم’ کا نام اپنی نصابی کتابوں میں پڑھتے ہیں، لیکن اس خوشی سے فزوں تر افسوس اس یادِ ماضی کی تلخ بازگشت پر ہوا کہ محض ایک صدی قبل ہم بھی اس ہزار سالہ عظیم الشان فارسی تمدن اور فارسی زبان و ادب و ثقافت کے اس وسیع منطقے سے منسلک تھے، لیکن گذشتہ صدی میں جس طرح ہمارا اس بلند مرتبہ فارسی تمدن سے تعلق منقطع ہوا ہے اور نتیجتاً جس طرح ہماری مجموعی ادبی و ثقافتی حیات رو بہ زوال بلکہ رو بہ مرگ ہوئی ہے، اگر میں اس انقلابِ فجیعِ روزگار پر حکیمِ طوس فردوسی کی ہم نوائی کرتے ہوئے ‘تفو بر تو اے چرخِ گردوں تفو’ کہوں تو بالکل بجا ہے۔
ویسے، اسی صنفِ دہم کی کتاب میں ابوالمعانی میرزا بیدل عظیم آبادی پر بھی ایک ۲۶ صفحات کا تفصیلی مضمون شامل ہے۔