خوب میدانم وفا از خود، جفا از یارِ خود – محمد فضولی بغدادی
پوسٹ کردہ: مارچ 19, 2019 Filed under: Uncategorized | Tags: فارسی شاعری, فارسی غزل, فضولی, ترجمہ, غزل تبصرہ کریںجنابِ «محمد فُضولی بغدادی» کی ایک فارسی غزل:
خوب میدانم وفا از خود، جفا از یارِ خود
زان که او در کارِ خود خوب است و من در کارِ خود
بِگْذر از آزارم ای بدخواه بر خود رحم کن
ور نه میسوزم تو را با آهِ آتشبارِ خود
برقِ آهِ آتشینم میگُدازد سنگ را
میدِهد بدخواه در آزارِ من آزارِ خود
من کِیَم تا افکنَد آن سرْو بر من سایهای؟
کاش بِگْذارد مرا در سایهٔ دیوارِ خود
میکند هر لحظه روزم را سیاه از دودِ آه
میکَشم صد آه هر دم از دلِ افگارِ خود
ای که از دستِ دلم هر دم شکایت میکنی
گر نمیخواهی، برافشان طُرّهٔ طرّارِ خود
کردهام اقرارِ جان دادن فضولی در رهش
گر کُشندم برنخواهم گشت از اقرارِ خود
(محمد فضولی بغدادی)
میں اپنی جانب سے وفا، اور اپنے یار کی جانب سے جفا کو خوب و بہتر سمجھتا ہوں۔۔۔ کیونکہ وہ اپنے کار میں خوب ہے، اور میں اپنے کار میں۔ (یعنی شاعر کہہ رہا ہے کہ میری نظر میں مُناسب و بہتر یہی ہے کہ میری جانب سے وفا ہو، اور یار کی جانب سے جفا ہو، کیونکہ میں وفا کرنے میں ماہر ہوں، جبکہ میرا یار جفا کرنا بخوبی جانتا ہے۔)
اے بدخواہ! مجھ کو آزار دینا تَرک کر دو [اور] خود پر رحم کرو۔۔۔ ورنہ مَیں خود کی آہِ آتش بار سے تم کو جلا دوں گا۔۔۔
میری آہِ آتشیں کی برق سنگ کو پِگھلا دیتی ہے۔۔۔ [لہٰذا] بدخواہ مجھ کو آزار دینے میں [در حقیقت] خود [ہی] کو آزار دیتا ہے۔
میں کون ہوں کہ وہ [محبوبِ] سرْو قامت مجھ پر ذرا سایہ ڈالے؟۔۔۔ [یہی کافی ہے کہ] کاش وہ مجھ کو اپنی دیوار کے سائے میں جانے دے دے!
[میرا دل اپنی] آہ کے دُھوئیں سے ہر لمحہ میرے روز کو سیاہ کر دیتا ہے۔۔۔ میں اپنے دلِ مجروح کے باعث ہر دم صد آہیں کھینچتا ہوں!
اے [محبوب] کہ جو ہر دم میرے دل کے سبب شکایت کرتے ہو!۔۔۔ اگر تم [ایسا] نہیں چاہتے تو اپنی زُلفِ طرّار کو بِکھرا دو۔
اے فُضولی! میں نے اُس کی راہ میں جان دینے کا اِقرار [و پَیماں] کیا ہے۔۔۔ اگر مجھ کو قتل کر دیں [تو بھی] میں خود کے اِقرار [و پَیماں] سے نہیں پلٹوں گا۔
لا يَمَسُّهُ اِلّا الْمُطَهَّرُون
پوسٹ کردہ: مارچ 16, 2019 Filed under: Uncategorized | Tags: قرآن, قطعہ, ترکی شاعری, ترجمہ, عثمانی ترکی شاعری تبصرہ کریںمجلِسده مُصحفِ رُخِ دلدارې دۆن گیجه
بوس ایتمهگه توجُّه ایدهرکن رقیبِ دون
اۏل گُلعِذار گۆلدی دیدی لا یَمَسُّهُ
بن بوس ایدۆپ همان دیدۆم اِلّا الْمُطَهَّرُون
گُذشتہ شب مجلِس میں جب رقیبِ پست دِلدار کے مُصحَفِ چہرہ کو بوسہ دینے کی جانب مائل ہو رہا تھا تو وہ گُلرُخسار ہنسا اور بولا "اِس کو [کوئی] نہ چُھوئے گا”۔۔۔ میں نے بوسہ دے کر فوراً کہا "اِلّا وہ جو پاک و مُطَہَّر ہیں”۔
× مندرجۂ بالا قِطعے میں سورۂ واقعہ کی آیت ۷۹ کی جانب اشارہ ہے۔
× یہ تُرکی قِطعہ «فیلیبهلی وجْدی» اور «آرپاامینیزاده مُصطفیٰ سامی» دونوں کے تصحیح شُدہ دیوانوں میں نظر آیا ہے۔ علاوہ بریں، ایک مأخذ میں یہ قِطعہ «روحی بغدادی» سے بھی منسوب نظر آیا ہے، لیکن خود «روحی بغدادی» کے دیوان میں مجھ کو نظر نہیں آیا۔
Meclisde mushaf-ı ruh-ı dildârı dün gice
Bûs itmege teveccüh iderken rakîb-i dûn
Ol gül-’izâr güldi didi lâ-yemessuhu
Ben bûs idüp hemân didüm ille’l-mutahharûn
آصَفېن مِقدارېنې بیلمهز سُلیمان اۏلمایان – ضیا پاشا
پوسٹ کردہ: فروری 15, 2019 Filed under: Uncategorized | Tags: ترکی شاعری, ترکی غزل, ترجمہ, عثمانی ترکی شاعری, غزل تبصرہ کریںآصَفېن مِقدارېنې بیلمهز سُلیمان اۏلمایان
بیلمهز انسان قدرینی عالَمده انسان اۏلمایان
زُلفۆنه دل وئرمهین بیلمهز گؤنۆل احوالینی
آنلاماز حالِ پریشانې پریشان اۏلمایان
رِزقېنا قانِع اۏلان گردونا مِنّت ائیلهمز
عالَمین سُلطانېدېر مُحتاجِ سُلطان اۏلمایان
کیم که قۏرقماز حقدان اۏندان قۏرقار اربابِ عُقول
هر نه ایستهرسه یاپار حقدان هِراسان اۏلمایان
اعتراض ائیلهرسه بیر نادان ضیا خاموش اۏلور
چۆنکه بیلمهز قدرِ گُفتارېن سُخندان اۏلمایان
(ضیا پاشا)
جو شخص سُلیمان نہ ہو، وہ آصَف کی قدر کو نہیں جانتا۔۔۔ جہان میں جو شخص انسان نہ ہو، وہ انسان کی قدر کو نہیں جانتا۔
× آصَف = روایات کے مُطابق، حضرتِ سُلیمان کے وزیر کا نام، جو ایک چشم زدن میں بلقیس کا تخت حضرتِ سُلیمان کے نزد لے آیا تھا۔
جو شخص [محبوب کی] زُلف کو دل نہیں دیتا، وہ دل کے احوال کو نہیں جانتا۔۔۔ جو شخص پریشان نہ ہو، وہ پریشان کے حال کو نہیں سمجھتا۔
جو شخص اپنے رزق پر قانِع ہو وہ چرخِ فلک (یا دُنیا و زمانہ) کی مِنّت و سماجت نہیں کرتا۔۔۔ جو شخص سُلطان کا مُحتاج نہ ہو، وہ عالَم کا سُلطان ہے۔
جو شخص حق تعالیٰ سے خوف نہیں کرتا، اُس سے اربابِ عقل خوف کرتے ہیں۔۔۔ [کیونکہ] حق تعالیٰ سے خوف زدہ نہ ہونے والا شخص [کسی چیز کا لِحاظ کیے بغیر] جو بھی چاہتا ہے کرتا ہے۔
اگر کوئی نادان اعتراض کرتا ہے تو ‘ضیا’ خاموش ہو جاتا ہے۔۔۔ کیونکہ جو شخص سُخن دان نہ ہو، وہ اُس کے گُفتار کی قدر و قیمت کو نہیں جانتا۔
Âsaf’ın mikdârını bilmez Süleyman olmayan
Bilmez insan kadrini âlemde insan olmayan
Zülfüne dil vermeyen bilmez gönül ahvâlini
Anlamaz hâl-i perişânı perişân olmayan
Rızkına kani’ olan gerdûna minnet eylemez
Âlemin sultânıdır muhtâc-ı sultân olmayan
Kim ki korkmaz Hak’tan ondan korkar erbâb-ı ukûl
Her ne isterse yapar Hak’tan hirasan olmayan
İ’tiraz eylerse bir nâdân Ziyâ hamûş olur
Çünki bilmez kadr-i güftârın sühandan olmayan
شرلوک ہومز کی زبان سے جنابِ «حافظِ شیرازی» کی سِتائش
پوسٹ کردہ: فروری 15, 2019 Filed under: Uncategorized | Tags: اقتباسات, تحریر, ترجمہ, حافظ شیرازی, شرلوک ہومز تبصرہ کریںشرلوک ہومز کے کردار کے خالق «آرتھر کونن ڈائل» کی ایک داستان «شناخت کا قضیہ» (A Case of Identity) کے اختتام پر شرلوک ہومز اپنے دوست و مُعاوِن ڈاکٹر واٹسن سے جنابِ «حافظِ شیرازی» کی سِتائش کرتے ہوئے، اور اُن کا لاطینی شاعر «ہوراس» سے تقابُل کرتے ہوئے کہتا ہے:
"You may remember the old Persian saying, ‘There is danger for him who taketh the tiger cub, and danger also for whoso snatches a delusion from a woman.’ There is as much sense in Hafiz as in Horace, and as much knowledge of the world.”
"شاید تمہیں وہ فارسی ضرب المثَل یاد ہو گی کہ ‘جو بھی شخص چِیتے کے بچّے کو ہتھیاتا ہے، یا جو بھی شخص کسی عورت سے وہم چھینتا ہے، اُس کے لیے خطرہ ہی خطرہ ہے’۔ حافظ میں اُسی قدر حِکمت و اِدراک و معرفتِ جہان موجود ہے جس قدر ہوراس میں۔”
اگرچہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ شرلوک نے جس ضرب المثَل کو حافظ کی شاعری کے طور پر پیش کیا ہے، وہ حافظ کی کسی بیت میں نہیں ہے، اور ایسی کوئی ضرب المثَل بھی میں نے کبھی فارسی میں نہیں دیکھی۔ ظاہراً، نویسندۂ داستان نے اِس سُنی ہوئی مَثَل کو غلطی سے حافظ کا قول سمجھ لیا تھا۔
اوزاقتا – صباحالدین علی
پوسٹ کردہ: فروری 15, 2019 Filed under: Uncategorized | Tags: ترکی نظم, ترکی شاعری, ترجمہ, صباحالدین علی تبصرہ کریں«صباحالدین علی» کی ایک تُرکی نظم «اوزاقتا» اردو ترجمے کے ساتھ:
===================
(اوزاقتا)
هر گۆن سنی آرېیۏروم،
نیچین بندن اوزاقتاسېن؟
داغا، تاشا سۏرویۏروم:
نیچین بندن اوزاقتاسېن؟..
یانېق بیر بۆلبۆل اؤتۆیۏر،
سسینی خاطېرلاتېیۏر؛
یۆزۆن گؤزۆمده تۆتۆیۏر،
نیچین بندن اوزاقتاسېن؟..
چیمهنلر سارارېپ یانمېش،
چیچهکلر یئره قاپانمېش،
یئریۆزۆ چؤللره دؤنمۆش،
نیچین بندن اوزاقتاسېن؟..
شو کؤشهده اۏتوروردون،
شوردا آیاقتا دوروردون،
شوردا سالېنېر یۆرۆردۆن؛
نیچین بندن اوزاقتاسېن؟..
یۆزۆم گۆلمهڲه اۆشهنیر،
گؤزۆمدن یاشلار بۏشانېر،
سن یۏقکن ناسېل یاشانېر؟
نیچین بندن اوزاقتاسېن؟..
(صباحالدین علی)
۱۹۳۲ء
===================
(دُور)
میں ہر روز تم کو تلاش کرتا ہوں،
تم کس لیے مجھ سے دُور ہو؟
میں کوہ سے [اور] سنگ سے پوچھتا ہوں:
"تم کس لیے مجھ سے دُور ہو؟”۔۔
اِک بُلبُلِ سوختہ چہچہا رہا ہے،
وہ تمہاری آواز یاد دِلا رہا ہے؛
تمہارے چہرے کی حسرتِ شدید میری آنکھوں میں سمائی ہوئی ہے،
تم کس لیے مجھ سے دُور ہو؟
چمن زرد ہو کر جل گئے ہیں،
گُل [پژمُردہ ہو کر] زمین میں چلے گئے ہیں؛
رُوئے زمین صحراؤں میں تبدیل ہو گیا ہے،
تم کس لیے مجھ سے دُور ہو؟۔۔
اِس گوشے میں تم بیٹھا کرتی تھی،
اِس جگہ تم قدموں پر کھڑی ہوتی تھی،
اِس جگہ تم جھولتی و چلتی تھی؛
تم کس لیے مجھ سے دُور ہو؟۔۔
میرا چہرہ ہنسنے کی قُوّت و رغبت نہیں رکھتا،
میری چشم سے اشک پھوٹتے ہیں،
تمہارے بغیر زندگی کیسے گُذاری جائے؟
تم کس لیے مجھ سے دُور ہو؟۔۔
(صباحالدین علی)
۱۹۳۲ء
===================
(Uzakta)
Her gün seni arıyorum,
Niçin benden uzaktasın?
Dağa, taşa soruyorum:
Niçin benden uzaktasın?..
Yanık bir bülbül ötüyör,
Sesini hatırlatıyor;
Yüzün gözümde tütüyor,
Niçin benden uzaktasın?..
Çimenler sararıp yanmış,
Çiçekler yere kapanmış,
Yeryüzü çöllere dönmüş,
Niçin benden uzaktasın?..
Şu köşede otururdun,
Şurda ayakta dururdun,
Şurda salınır yürürdün;
Niçin benden uzaktasın?..
Yüzüm gülmeğe üşenir,
Gözümden yaşlar boşanır,
Sen yokken nasıl yaşanır?
Niçin benden uzaktasın?..
(Sabahattin Ali)
1932
× مندرجۂ بالا تُرکی نظم آٹھ ہِجوں کے ہِجائی وزن میں ہے۔
رُخسارین آچیب بیر پری کېلدی بو تون بزمیم ارا – محمد رحیمخان ثانی «فیروز»
پوسٹ کردہ: فروری 3, 2019 Filed under: Uncategorized | Tags: چغتائی ترکی شاعری, وسطی ایشیا, ترکی شاعری, ترکی غزل, ترجمہ, خیوہ تبصرہ کریںوسطی ایشیا میں واقع «خاناتِ خِیوه» کے ایک فرماں روا «محمد رحیمخان ثانی ‘فیروز’» (وفات: ۱۹۱۰ء) کی ایک تُرکی غزل اردو ترجمے کے ساتھ:
رُخسارین آچیب بیر پری کېلدی بو تون بزمیم ارا
باشدین آیاقی بار اېکن مِهر و وفا، ناز و ادا
چیقسه فلککه هر سحَر آه و فغانیم، نې عجب
أیلر فُزونراق هر کېچه اول آی مېنگه جَور و جفا
بیلمان نې آفت اېردی اول بۉلغاچ نظرگه جلوهگر
عقل و خِرَد، اسلام و دین اۉلدی باری مېندین جُدا
جانینگ اوچون هر دم منگه کۉرگوز ترحُّم، ای پری
کیم صبر و طاقت قالمهدی جَورینگ چېکیب صُبح و مسا
آیدېک یوزونگنینگ پرتَوی توشسون قرا کُلبهمغه هم
قۉیغیل قدم، ای مهلِقا، آچیب عذارِ دلکُشا
نې سود طالِع بۉلسه گر یوز آی و کون هر صُبح و شام
نېچون که بار فېروزغه مِهر و جمالینگ مُدّعا
(محمد رحیمخان ثانی ‘فیروز’)
اپنے رُخسار کو کھول کر ایک پری اِس شب میری بزم میں آئی۔۔۔ اِس حالت میں کہ اُس کا سر سے پاؤں محبّت و وفا اور ناز و ادا تھا۔
اگر ہر صُبح میری آہ و فغاں فلک تک جائے تو کیا عجب؟۔۔۔ وہ ماہ [جیسا محبوب] ہر شب مجھ پر جَور و جفا مزید زیادہ کرتا ہے۔
میں نہیں جانتا کہ وہ کیسی آفت تھا کہ نظر کی جانب اُس کے جلوہ گر ہوتے ہی عقل و خِرَد اور اسلام و دین سب کے سب مجھ سے جُدا ہو گئے۔
اے پری! اپنی جان کی خاطر (یعنی تم کو تمہاری جان کا واسطہ!)، مجھ کو ہر لمحہ رحم دِکھاؤ، کیونکہ صُبح و شام تمہارا جَور و سِتم کھینچ [کھینچ] کر مجھ میں صبر و طاقت باقی نہ رہی۔
اے ماہ لِقا! [اپنا] رُخسارِ دل کَش کھول کر [یہاں] قدم رکھو تاکہ میرے تاریک کُلبے میں بھی تمہارے مِثلِ ماہ چہرے کا پرتَو گِر جائے۔ (کُلبہ = کوٹھری، جھونپڑی)
اگر ہر صُبح و شام صد ماہ و خورشید طُلوع ہوں، تو کیا فائدہ؟۔۔۔ کیونکہ «فیروز» کو [تو] تمہاری محبّت و جمال کی آرزو ہے۔
Ruxsorin ochib bir pari keldi bu tun bazmim aro.
Boshdin oyoqi bor ekan mehru vafo, nozu ado.
Chiqsa falakka har sahar ohu fig‘onim, ne ajab,
Aylar fuzunroq har kecha ul oy menga javru jafo.
Bilmon, ne ofat erdi ul bo‘lg‘och nazarga jilvagar,
Aqlu xirad, islomu din o‘ldi bori mendin judo.
Joning uchun har dam manga ko‘rguz tarahhum, ey pari
Kim, sabru toqat qolmadi javring chekib subhu maso.
Oydek yuzungning partavi tushsun qaro kulbamg‘a ham,
Qo‘yg‘il qadam, ey mahliqo, ochib uzori dilkusho.
Ne sud, tole’ bo‘lsa gar yuz oyu kun, har subhu shom,
Nechunki bor Feruzg‘a mehru jamoling muddao.
جنابِ «امیر علیشیر نوایی» کی ایک فارسی اور ایک تُرکی رباعی
پوسٹ کردہ: جنوری 20, 2019 Filed under: Uncategorized | Tags: فارسی شاعری, چغتائی ترکی شاعری, امیر علی شیر نوائی, ترکی شاعری, ترجمہ, رباعی تبصرہ کریں(فارسی رباعی)
جانم به دو لعلِ جانفزایِ تو فدا
روحم به نسیمِ عطرسایِ تو فدا
آشُفته دلم به عِشوههایِ تو فدا
فرسوده تنم به خاکِ پایِ تو فدا
(امیر علیشیر نوایی)
میری جان تمہارے لعل جیسے دو جاں فزا لبوں پر فدا!۔۔۔ میری روح تمہاری [جانب سے آنے والی] مُعَطّر کُن بادِ نسیم پر فدا!۔۔۔ میرا دلِ آشُفتہ تمہارے ناز و عِشووں پر فدا!۔۔۔ میرا تنِ فرسُودہ تمہاری خاکِ پا پر فدا!
(تُرکی رباعی)
جانیمدهغی «جِیم» ایککی دالینگغه فدا
اندین سۉنگ «الِف» تازه نِهالینگغه فدا
«نُون»ی دغی عنبَرین هِلالینگغه فدا
قالغن ایکی نُقطه ایککی خالینگغه فدا
(امیر علیشیر نوایی)
میری جان کا «جِیم» تمہاری دو دال [جیسی زُلفوں] پر فدا!۔۔۔ اُس کے بعد «الِف» تمہارے تازہ نِہال [جیسے قد] پر فدا!۔۔۔ اُس کا «نُون» بھی تمہارے ہِلالِ عنبَریں [جیسے ابرو] پر فدا!۔۔۔ باقی ماندہ دو نُقطے تمہارے دو خالوں پر فدا!
Jonimdag’i jim ikki dolingg’a fido,
Andin so’ng alif toza niholingg’a fido,
Nuni dag’i anbarin hiloningg’a fido,
Qolg’an iki nuqta ikki xolingg’a fido.
جنابِ «امیر علیشیر نوایی» کا ایک تُرکی قطعہ
پوسٹ کردہ: جنوری 18, 2019 Filed under: Uncategorized | Tags: قطعہ, چغتائی ترکی شاعری, امیر علی شیر نوائی, ترکی شاعری, ترجمہ تبصرہ کریں(قطعه)
نِهانی ایگنه سنچر یارلردین
عدووَش ناوکافگنلر کۉپ آرتوق
مُنافقشېوه ظالم دۉستلردین
مُخالفطبع دُشمنلر کۉپ آرتوق
(امیر علیشیر نوایی)
مخفی طور پر سُوئی چُبھانے والے یاروں سے، مثلِ دُشمن تیر پھینکنے والے [اشخاص] بِسیار عالی تر ہیں۔
مُنافقشیوہ ظالم دوستوں سے، مُخالففطرت دُشمنان بِسیار عالی تر ہیں۔
Nihoniy igna sanchar yorlardin
Aduvvash novakafganlar ko’p ortuq
Munofiqsheva zolim do’stlardin
Muxoliftab’ dushmanlar ko’p ortuq
امشب شهادتنامهٔ عشاق امضا میشود – حبیبالله چایچیان «حسان»
پوسٹ کردہ: جنوری 12, 2019 Filed under: Uncategorized | Tags: فارسی شاعری, نوحہ, ترجمہ, حبیبالله چایچیان, حضرتِ حسین, شبِ عاشورا, عاشورا تبصرہ کریںشبِ عاشورا کی یاد میں کہی گئی ایک رِثائی نظم:
اِمشب شهادتنامهٔ عُشّاق اِمضا میشود
فردا ز خونِ عاشقان، این دشت دریا میشود
امشب کنارِ یکدِگر، بِنْشسته آلِ مُصطفیٰ
فردا پریشان جمعشان، چون قلبِ زهرا میشود
امشب بُوَد بر پا اگر، این خیمهٔ شاهنشهی
فردا به دست دُشمنان، برکَنده از جا میشود
امشب صدایِ خواندنِ قرآن به گوش آید ولی
فردا صدایِ الأمان، زین دشت بر پا میشود
امشب کنارِ مادرش، لبتشنه اصغر خُفته است
فردا، خُدایا!، بِستَرش، آغوشِ صحرا میشود
امشب که جمعِ کودکان، در خوابِ ناز آسودهاند
فردا به زیرِ خارها، گُمگشته پیدا میشود
امشب رُقیّه حلقهٔ زرّین اگر دارد به گوش
فردا دریغ این گوشوار از گوشِ او وا میشود
امشب به خیلِ تشنگان، عبّاس باشد پاسبان
فردا کنارِ علقَمه، بی دست، سقّا میشود
امشب که قاسم زینتِ گُلزارِ آل مُصطفاست
فردا ز مرکَب سرنگون، این سرْوِ رعنا میشود
امشب بُوِد جایِ علی، آغوشِ گرمِ مادرش
فردا چو گُلها پیکرش، پامالِ اعدا میشود
امشب گرفته در میان، اصحاب، ثارالله را
فردا عزیزِ فاطمه، بییار و تنها میشود
امشب به دستِ شاهِ دین، باشد سُلیمانی نِگین
فردا به دستِ ساربان، این حلقه یغما میشود
امشب سرِ سِرِّ خدا، بر دامنِ زینب بُوَد
فردا انیسِ خولی و دَیرِ نصاریٰ میشود
ترسم زمین و آسمان، زیر و زبر گردد «حسان»
فردا اسارتنامهٔ زینب چو اِجرا میشود
(حبیبالله چایچیان «حسان»)
اِس شب عاشقوں کے شہادت نامے پر اِمضا (دستخط) ہو رہا ہے۔۔۔ روزِ فردا عاشقوں کے خون سے یہ دشت دریا ہو جائے گا۔
اِس شب آلِ مُصطفیٰ ایک دوسرے کے پہلو میں بیٹھی ہوئی ہے۔۔۔ روزِ فردا یہ تمام افراد قلبِ زہرا کی مانند پراگندہ و درہم برہم ہو جائیں گے۔
اِس شب اگر یہ خیمۂ شاہنشاہی برپا ہے تو روزِ فردا دُشمنوں کے دست سے یہ خیمہ جگہ سے اُکھاڑ دیا جائے گا۔
اِس شب کانوں میں تلاوتِ قُرآن کی صدا آتی ہے۔۔۔ روزِ فردا اِس دشت سے الامان کی صدا برپا ہو گی۔
اِس شب اصغر اپنی مادر کے پہلو میں لب تشنہ سویا ہوا ہے۔۔۔ خُدایا! روزِ فردا اُس کا بِستَر آغوشِ صحرا ہو جائے گا!
اِس شب تمام بچّے خوابِ ناز میں آسودہ ہیں، [لیکن] روزِ فردا گُم گشتہ [طِفل] خاروں کے زیر میں سے مِلے گا۔
اگر اِس شب رُقیّہ کے کان میں حلقۂ زرّیں ہے تو افسوس! روزِ فردا اُس کے کان سے یہ گوشوار (بُندا) کُھل جائے گا۔
اِس شب عبّاس گروہِ تشنگاں کا پاسبان ہے۔۔۔ روزِ فردا وہ سقّا نہرِ علقَمہ کے کنارے بے دست ہو جائے گا!
اِس شب قاسم زینتِ گُلزارِ آلِ مُصطفیٰ ہے، [لیکن] روزِ فردا یہ سرْوِ رعنا سواری سے سرنِگوں [گِر] جائے گا۔
اِس شبِ علیِ اکبر کا مسکن اپنی مادر کی گرم آغوش ہے۔۔۔ روزِ فردا گُلوں کی مانند اُس کا پیکر پامالِ دُشمناں ہو جائے گا۔
اِس شب اصحاب نے ثار الله (حضرتِ حُسین) کو اپنے درمیان لیا ہوا ہے۔۔۔ روزِ فردا عزیزِ فاطمہ بے یار و تنہا ہو جائے گا۔
اِس شب شاہِ دیں (حضرتِ حُسین) کے دست میں نِگینِ سُلیمانی ہے۔۔۔ روزِ فردا یہ انگُشتری ساربان کے بدست غارت و تاراج ہو جائے گی۔
اِس شب رازِ خُدا (حضرتِ حُسین) کا سر دامنِ زینب میں ہے۔۔۔ روزِ فردا وہ سر «خولی» اور دَیرِ نصاریٰ کا ہمدم و ہم نشین ہو جائے گا۔
اے «حسان»! مجھے خوف ہے کہ روزِ فردا جب زینب کا اسارت نامہ جاری ہو گا تو زمین و آسمان زیر و زبر ہو جائیں گے۔
رجب طیب اردوغان کی زبان سے جنابِ حافظ شیرازی کی ایک بیت کی قرائت
پوسٹ کردہ: جنوری 3, 2019 Filed under: Uncategorized | Tags: فارسی شاعری, نظامی گنجوی, ایران, ترکیہ, ترجمہ, حافظ شیرازی, حسن روحانی, رجب طیب اردوغان تبصرہ کریںصدرِ مملکتِ تُرکیہ «رجب طیّب اردوغان» نے صدرِ مملکتِ ایران «حسن روحانی» کی معیت میں ۲۰ دسمبر ۲۰۱۸ء کو انقرہ میں منعقد ہونے والے مشترکہ اجلاس میں جنابِ «حافظ شیرازی» کی ایک بیت کی فارسی میں قرائت کی:
"ہم نے اپنی گفتگو و سُخن رانی (تقریر) کا آغاز «نظامی» سے کیا تھا، اور اب میں چاہتا ہوں کہ ہم اِس کا اختتام «حافظِ شیرازی» کے ساتھ کریں۔ ہمارے جُغرافیائی خِطّے کے ایک عظیم شاعر «حافظِ شیرازی» کہتے ہیں کہ:
درختِ دوستی بِنْشان، که کامِ دل به بار آرد
نهالِ دشمنی برکَن، که رنجِ بیشمار آرد”
(حافظ شیرازی)
دوستی کا درخت بوؤ کہ یہ آرزوئے دل کا میوہ لاتا ہے (یعنی اِس کے باعث آرزو و مُرادِ دل برآوردہ ہوتی ہے)۔۔۔ دُشمنی کا نِہال (پودا) اُکھاڑ دو کہ یہ بے شُمار رنج لاتا ہے۔
یاددہانی: اِس مُراسلے کو اِرسال کرنے کا سبب زبان و شعرِ پارسی اور حافظِ شیرازی سے محبّت ہے، اردوغان یا اُس کی سیاست کی حمایت و مُخالفت نہیں ہے۔
===============
پس نوشت: رجب طیّب اردوغان نے اپنی اِس تقریر کا آغاز جنابِ «نظامی گنجوی» کی اِس حمدیہ بیت سے کیا تھا:
ای نامِ تو بهترین سرآغاز
بی نامِ تو نامه کَی کنم باز
اے کہ تمہارا نام بہترین دیباچہ و آغاز ہے، میں تمہارے نام کے بغیر کتاب و نامہ کب کھولتا ہوں/ کھولوں گا؟