مُلّا نصرالدین اور فارسی زبان

امروز یہ پُرمزاح حکایت ترکی زبان میں پڑھنے کو ملی:

ملّا نصرالدین ایک گفتگو میں شامل ہوا۔ یہاں وہاں کی اور آب و ہوا کی باتیں ہونے لگیں۔ گفتگو کے دوران وہاں موجود ایک شخص نے اُس سے کہا:
"خواجۂ من، آپ کی خواجگی پر ہمیں کوئی کلام نہیں۔ لیکن افسوس کہ آپ فارسی نہیں جانتے! اِسی باعث مسجد میں دیے جانے والے آپ کے وعظ اِس قدر پُرکیف و پُرلذت نہیں ہوتے!"
جب دیگر افراد بھی اِن سخنوں کی تائید کرنے لگے تو ملّا نے پوچھا:
"آپ نے کیسے فیصلہ کر لیا کہ میں فارسی نہیں جانتا؟”
وہاں موجود مردم نے کہا:
"اگر جانتے ہیں تو کوئی فارسی بیت سنائیے!”
ملّا نے فوراً یہ دو سطریں پڑھیں:
"Mor menekşe boynun eğmiş uyurest
Kafir soğan kat kat urba giyirest!”
(بنفشی گُلِ بنفشہ کی گردن خمیدہ ہے اور وہ سویا ہوا ہے؛ کافر پیاز نے تہ بہ تہ جامہ پہنا ہوا ہے۔)
جب ملّا یہ شعر سنا چکا تو سامعین نے اعتراضں کرتے ہوئے پوچھا:
"خواجہ، اِس میں فارسی کہاں ہے؟”
ملّا نے ہنستے ہوئے یہ جواب دیا:
"آخر میں آپ کو ‘است’ نظر نہیں آ رہے؟”

ماخذ

× ملّا کا پورا شعر ترکی میں ہے، صرف دونوں مصرعوں کے آخر میں ‘است’ فارسی کا ہے۔
× بَنَفشی = وائلٹ


ہم نے رسی پر گندم پھیلایا ہوا ہے!

روی طناب گندم پهن کرده‌ایم!
یکی از همسایه‌ها به درِ خانهٔ ملا آمده طناب برای پهن کردنِ رخت امانت می‌خواهد.
ملا برای آوردنِ طناب داخلِ خانه می‌شود و بعد از مدتی معطلی آمده می‌گوید: فُلانی ببخشید، روی طناب گندم پهن کرده‌ایم.
همسایه با تعجب می‌پرسد: جانم، این چه حرفی است، مگر روی طناب هم می‌توان گندم پهن کرد؟
ملا جواب می‌دهد: چطور ‌نمی‌توان کرد؟ وقتی نخواهی بدهی، ارزن هم پهن می‌توان کرد.
کتاب: لطیفه‌های ملّا نصرالدین
مؤلف: محمد علی فرزانه
سالِ اشاعتِ اول: ۱۳۷۴هش/۲۰۰۵ء

ہم نے رسی پر گندم پھیلایا ہوا ہے!
ایک ہمسایہ ملا [نصرالدین] کے گھر کے دروازے پر آ کر لباس پھیلانے کے لیے امانتاً رسی مانگتا ہے۔
ملا رسی لانے کے لیے گھر میں داخل ہوتا ہے اور کچھ مدت تاخیر کے بعد آ کر کہتا ہے: اے فلاں، معاف کیجیے، ہم نے رسی پر گندم پھیلایا ہوا ہے۔
ہمسایہ تعجب کے ساتھ پوچھتا ہے: میری جان، یہ کیسی بات ہے، مگر کیا رسی پر بھی گندم پھیلایا جا سکتا ہے؟
ملا جواب دیتا ہے: کیسے نہیں پھیلایا جا سکتا؟ جب نہ دینا چاہو تو باجرا بھی پھیلایا جا سکتا ہے۔